ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی گئی

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے ملک بھر میں عام انتخابات ایک تاریخ کو کرانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور نے درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔

شاہ خاور نے کہا کہ اب اس درخواست کی ضرورت نہیں رہی، اس وقت ایک کوشش کی گئی کہ انتخابات کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا ہو، اب عدالت پورے ملک کے انتخابات کے حوالے سے مقدمہ سن رہی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل شاہ خاور سے استفسار کیا کہ کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں، آپ کیا بات کر رہے ہیں؟

شاہ خاور نے جواب دیا کہ اُس وقت سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کا حکم جاری کیا تھا، پھر ہم نے ملک بھی میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی درخواست دائر کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تو سارا جھگڑا ہے، کیا اس وقت کوئی آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوا تھا؟ وکیل شاہ خاور نے کہا کہ 4 آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی مقدمے پر مختلف رائے ہو تو ایک آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوتا ہے، وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اس طرح کا آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہوا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو تو 14 مئی کے انتخابات کے سپریم کورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی درخواست دائر کرنا چاہیے تھی، آپ نے یہ درخواست دائر کر کے آئین کی خلاف ورزی کی کوشش نہیں کی؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا عدالت کے پاس ایسا اختیار ہے کہ کوئی فیصلہ جاری کر سکے؟ وکیل شاہ خاور نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بالکل سزا ملنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کس شخص نے سپریم کورٹ کے 15 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی؟ الیکشن کا فیصلہ دینے والے بنچ کا آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے؟ آرڈر وہ ہوتا ہے جس پر سب ججز کے دستخط ہوں۔

عدالت میں فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 14 مئی کے الیکشن کا فیصلہ دینے والا آرڈر آف دی کورٹ موجود ہی نہیں، 14 مئی کو انتخابات کا حکم دے کر 90 دن کی آئینی مدت کی خود عدالت نے بھی خلاف ورزی کی، عدالت نے 14 مئی کا آرڈر دیا وہ 90 دن سے باہر تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہی تو سمجھ نہیں آ رہی کہ انتخابات کرانے کا کیا آرڈر تھا؟ یہ وہی کیس ہے ناں جس میں بہت سے ججز نے اپنا اپنا آرڈر لکھا، آرڈر آف دی کورٹ کیا ہوتا ہے اسی کیلئے آپ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ پڑھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے میں اختلاف موجود تھا مگر دستخط سب ججز نے کئے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آئینی تجدید کا آرڈر کون لایا تھا؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 1985 میں ضیاء الحق سی آر او لائے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب آپ فاروق ایچ نائیک پر طنز نہ کیجیے گا کہ انہوں نے ضیاء الحق کی بات کر دی، 2 انتخابات نگران حکومتوں کے بغیر بھی ہوئے، 2002 کے الیکشن بھی نگران حکومتوں کے بغیر ہوئے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ انتخابات کے پروگرام کا اعلان کرے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2 نومبر کا نوٹس کر دیا ہے، آپ بھی اس دن آ جائیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی استحکام آئینی ضرورت ہے، سیاسی استحکام ہمارا کام نہیں سیاسی لوگوں کا کام ہے، صرف صاف شفاف انتخابات نہیں بلکہ ہر کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ بھی ملنی چاہیے، لیول پلیئنگ فیلڈ کو آپ سیاسی لوگوں کو یقینی بنانا ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے عام انتخابات ایک ہی دن کرانے کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں